Saim Dušan
آج میں ایک تاریخی شخصیت کے سوانحِ حیات اور تاریخی میراث کو پیش کروں گا۔ وْوُک کاراجِیچ سربیا کا ایک دانشور اور ماہرِ لسانیات تھا۔ وہ سربیائی قومی تہریک اور ادب کی ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ اس نے سربیائی لوک کہانیوں کو مجموعہ کیا جس کی وجہ سے یہ کہانیاں یورپ بھر میں مشہور ہوی تھی۔ جس زمانے میں ووک پیدہ ہوا تھا سربیا پر ترکی قبضہ تھا یعنی سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ اس زمانے میں یورپ بھر میں قومیت پرست اور لبرل سوچ دونوں تیزی سے پہلنے لگیں جس سے پرانی سلطنات اور جاگر دارانہ نظام کو خظرہ تھا۔ سربیائی قوم نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف دو دفعہ بغاوت کی تھی جس کے نتیجے سے سربیا پہلے سلطنت عثمانیہ کی ایک خود مختار امارت بن گیا اور بالآخر سلطنت سے علیحدہ ہوا تھا۔ ووک کی کتابت اس زمانے کی سوچ کو عکاسی کرتی ہے۔ اس نے اس لئے لوک کہانیوں کو مجموعہ کیا کیونکہ وہ یہ سوچتا تھا کہ سربیائی عوام کی بولی قوم کی روح تھی۔ یہ تصور قومیت پرست سوچ سے پیدہ ہوی تھی۔ لبرل سوچ نے عوامی زبانوں کی جمایت بھی کی اس لیے کہ لبرلز یہ چاہتے تھے کہ لوگ نہ صرف سلطنت کی رعیت ہوں یا مذہبی گروہ کے ارکان ہوں بلکہ جدید ریاست کے شہری بن کر سیاست میں شامل ہوں یعنی قوم کی زبان کو ریاستی زبان بنا چاہیے۔ لہذا ووک نہ صرف لوک ادب کا مجموعہ کرنے والا تھا بلکہ زبان کا مصلج بھی تھا۔ اس کے دو اصلاح تھے۔ ایک یہ تھا کہ ہر حرف فقط ایک صدا کو عکاسی کرے اور ہر صدا ایک حرف سے لکھا جائے۔ دوسرا یہ تھا کہ ادبی اور سرکاری زبان عوامی بولی پر مبنی ہو۔ ووک سے پہلے سربیائی لکھاری یا اجنبی زبانیں یا پرانی کلیسائی سلاوی زبان استعمال کرتے تھے۔ پرانی کلیسائی سلاوی پرانی بلغاری پر مبنی تھی اور عبادتی زبان کی حیثیت سے استعمال تھی جب سلاوی اقوام نے (جن میں سربیائی اور بلغاری اقوام دونوں شامل ہیں) مسیحی مذہب کو تسلیم کیا۔ ووک نے یہ تجویز کی کہ کلیسائی سلاوی زبان کے بجائے اس کے علاقے کی بولی سربیائی ادبی اور دفتری زبان بنے۔ سربیا کے رجعت پسند عناصر اور سربیائی راسخ الاعتقاد کلیسے نے اس کی سخت مخالفت کی تھی مگر بالآخر ووک کی سوچ جیت گئی اور آج تک سربیائی عوام ووک کے صادہ بنائے ہوے نظامِ کتابت سے پڑھتے لکھتے ہیں اور کلیسائی سلاوی صرف گرجے کے اندر استعمال ہوتی ہے۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ووک کی سوچ نے جدید سربیائی معشرے پر گہرا اثر کیا
Apr 5, 2021 7:06 AM